(ایک اجمالی مطالعہ)
حضرت امام ابوحنیفہ
نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ کوفی تابعی قدس سرہ
العزیز (متوفی ۱۵۰ھ م۷۶۷/ بمقام
بغداد) کی عظیم المرتبت شخصیت کے وسیع منظرنامے پر ایک
پنہاں پہلو ”تصوف“ جو اکثر اصحاب فکر ونظر سے دور رہا۔ لیکن حیات
اور کارناموں کے پس منظر پر اگرنظر عمیق سے دیکھیں تو یہ
واضح ہوگا کہ اہل تصوف وسلوک نے اصلاح باطنی کے تعلق سے جو اصلاحی
نصاب ترتیب دیا، اس سے بہت پہلے حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ
علیہ اس پر کاربند نظر آتے ہیں، اور پھر ان کی تمام زندگی
کے تمام گوشوں پر احسان وسلوک کی کیفیات ومشاہدات اجاگر ملتی
ہیں۔
لفظ تصوف
اوراصطلاحی تصوف سے بہت پہلے، حضرت امام ابوحنیفہ
کی تصوفانہ عملی زندگی سے وابستگی کا ثبوت اس طرح ملتا ہے
کہ، صاحب درمختار علامہ محمد بن علی بن محمد بن عبدالرحمن حصکفی
(متوفی ۱۰/شوال ۱۰۸۸ھ بہ عمر
۶۳ سال) نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوعلی دقاق رحمة اللہ علیہ
نے فرمایا:
”میں نے
علم تصوف حضرت شبلی سے حاصل کیا، انھوں نے حضرت سری
سقطی سے اور انھوں نے حضرت معروف کرخی
سے اورانھوں نے حضرت داؤد طائی
سے اور انھوں نے علم تصوف اور حدیث و فقہ حضرت امام ابوحنیفہ نعمان بن
ثابت کوفی تابعی
سے اخذ و استفادہ فرمایا۔“
متذکرہ چار عظیم
شخصیات کا مقام ومرتبہ حلقہ تصوف میں صدیوں سے نمایاں حیثیت
کا حامل بن کر روشن ستارہ کے مانند ہے۔ امام محی الدین شرف الدین
نووی اپنے رسالہ ”المقاصد“ میں تصوف
کے پانچ اصول ترتیب وار اس طرح لکھتے ہیں:
(۱) خلوت اور جلوت میں اللہ تعالیٰ
کا تقویٰ اختیار کرنا۔
(۲) اقوال وافعال میں سنت نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم کی پیروی
کرنا۔
(۳) عروج و اقبال اور پستی میں مخلوق
خدا سے اعراض کرنا۔
(۴) قلیل و کثیر رزق پر اللہ عالیٰ
سے راضی رہنا۔
(۵) خوشی و مسرت اور رنج و غم میں اللہ
تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا۔
اور حضرت جنید
بغدادی (متوفی
۲۹۷ھ) طریقت کے پانچ اصول اس طرح فرماتے ہیں:
۱- دن کا روزہ۔
۲- شب میں قیام۔
۳- اخلاص عمل۔
۴- اعمال میں کامل رعایت۔
۵- ہر حالت میں اللہ تعالیٰ پر
توکل۔
تمام مورخین
اور تذکرہ نگار اس پر متفق ہیں کہ مذکورہ تمام خصوصیاتِ تصوف سے امام
ابوحنیفہ تا حیات منسلک و منہمک رہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ
رحمة اللہ علیہ کے ساتھ لفظ صوفی اور صوفیائے کرام کے سلاسل میں
اسم استعمال نہیں کیاگیا۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور
صوفیاء کے تعلق سے عربی کتاب اہل الفتوحات والازواق کے مصنف نے اس طرح
لکھا ہے:
حضرت امام ابوحنیفہ
رحمة اللہ علیہ صوفیائے کرام سے محبت فرمایا کرتے تھے (یعنی
تقویٰ والوں سے) اوران کے قیام و مرتبہ کا احترام کرتے تھے
(بحوالہ کتاب تصوف اور صوفیاء)۔
مستشرقین
نے اسلامی علوم اوراسلامی تعلیمات کی اصل شکل و صورت کو
بڑی چالاکی سے مسخ کرنے کی طرف خاص توجہ دی، اسی
طرح انھوں نے اسلامی تصوف کو بھی مسخ کرنے پر بڑی کوششیں
کی ہیں۔ ان کا علمی تعاقب اصحاب قلم اور اصحاب قلوب نے
خوب کیاہے۔ ان مخلصانہ کاوشوں کی بدولت اسلامی علوم اور
فنون کی اصل شبیہ آج تک موجود ہے۔
تصوف کی دو
تعبیرات کی جاسکتی ہیں، ایک اثبات اور دوسرا نفی،
اثباتی پہلو میں بدعات و رسومات سے مکمل اجتناب پایا جاتا ہے،
اوراس میں قرآن وحدیث کی تعلیمات سے مکمل وابستگی
اور وارفتگی نمایاں ہوتی ہے۔اور دوسرا پہلو نفی ہے،
جس میں مکمل بدعات اور خرافات (مشرکانہ کردار) نمایاں ہوتے ہیں۔
تعبیر دوم
کی ابتداء مستشرقین نے کی ہے، سادہ لوح مسلمان تعبیر دوم
سے متاثر ہوکر تصوف کی تمام تعلیمات کو یکسر انکار کرتے بلکہ
مخالفت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
حضرت امام ابوحنیفہ
رحمة اللہ علیہ کی ساری زندگی علمی اور عملی
تصوف سے لبریز تھی۔
امیرالمومنین
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے تعلق سے تمام اہل سلاسل
کا اتفاق ہے کہ امیر المومنین سے تصوف جاری ہوا، اور صوفیائے
کرام کے سردار امیرالمومنین رضی اللہ عنہ ہیں۔
حضرت امیرالمومنین
رضی اللہ عنہ سے حضرت امام ابوحنیفہ
کے دادا (زوطی یا زوطیٰ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا نام
نعمان رکھاگیا) کے عقیدت مندانہ تعلقات تھے۔ اور نعمان کے گھر
لڑکا پیداہوا، اس کا نام ثابت رکھا گیا، نومولود ثابت کو نعمان نے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں لے گئے اور دعائیں لے کر
لوٹ آئے، ثابت کو اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا کیا، اس کا نام نعمان
رکھا گیا۔ نعمان بن ثابت بن نعمان ہے، اس طرح امام ابوحنیفہ سے
امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب
سے خاص تعلق تھا، اور دوسرا خاص تعلق یہ تھا کہ امام ابوحنیفہ کے اساتذہ
کے اساتذہ میں امیرالمومنین آتے ہیں۔
ان دونوں خصوصیات
سے آراستہ ہونے کی وجہ سے حضرت امام ابوحنیفہ کے تلمیذ حضرت
داؤد طائی رحمة اللہ علیہ شیخ سلاسل میں شامل اور کامل
نظر آتے ہیں۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد: 91 ، جمادی الثانی
1428 ہجری مطابق جولائی2007ء